حضرت اویس قرنی جنت کے دروازے پر کیوں روک لیے جائیں گے

حضرت اویس قرنی ؓ روضہ مبارک

حضرت اویس قرنی ؓ روضہ مبارک

لاہور ۔۔۔ نیوز ٹائم

معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل فرماتے ہیں کہ حضور ۖ نے فرمایا کہ جب لوگ جنت میں جا رہے ہوں تو اویس قرنی کو جنت کے دروازے پر روک لیا جائے گا۔ حضرت اویس قرنی کون ہیں۔ اویس نام ہے عامر کے بیٹے ہیں مراد قبلہ ہے قرن ان کی شاخ ہے اور یمن ان کی رہائش گاہ تھی۔ حضرت نے ماں کے حددرجہ خدمت کی۔ وہ آسمانوں تک پہنچی اویس قرنی حضور کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکے۔ جبرئیل آسمان سے پہنچے اور ان کی بات کو حضور نے بیان کیا چونکہ حضور دیکھ رہے تھے کہ آئندہ آنے والی نسلیں اپنی مائوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں گی  ایک سائل نے سوال کیا یارسول اللہ ۖ قیامت کب آئے گی تو آپ ۖ نے  ارشاد فرمایا مجھے نہیں معلوم کب آئے گی تو سائل نے کہا کہ کوئی نشانی تو بتا دیں تو آپ ۖ نے فرمایا جب اولاد اپنی ماں کو ذلیل کرے گی تو قیامت آئے گی۔ حضور ۖ نے حضرت عمر اور حضرت علی سے کہا کہ تمہارے دور میں ایک شخص ہو گا جس کا نام ہو گا اویس بن عامر درمیانہ قد رنگ کالاجسم پر ایک سفید داغ حضور ۖ نے ان کا حلیہ ایسے بیان کیا جسے سامنے دیکھ رہے ہوں وہ آئے گا جب وہ آئے تو تم دونوں نے اس سے دعا کرانی ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی کو اویس قرنی کی دعا کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ امت کو پیغام پہنچانے کے لیے ہے کہ ماں کا کیا مقام ہے حضرت عمر حیران ہو گئے اور سوچنے لگے کہ حضورۖ کیا کہہ رہے ہیں  کہ ہم اویس سے دعا کرائیں تو حضور ۖ نے فرمایا عمر، علی، اویس نے ماں کی خدمت اس طرح کی ہے جب وہ ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ اس کی دعا کو خالی نہیں جانے دیتا۔ حضرت عمر دس سال خلیفہ رہے دس سال حج کیا لیکن انہیں اویس نہ ملے ایک دن سارے حاجیوں کو اکٹھا کر لیا  اور کہا کہ تمام حاجی کھڑے ہو جائو آپ کے حکم پر تمام حاجی کھڑے ہو گئے پھر کہا کہ سب بیٹھ جائو  صرف یمن والے کھڑے رہو تو سب بیٹھ گئے اور یمن والے کھڑے رہے پھر کہا کہ یمن والے سارے بیٹھ جائو صرف مراد قبیلہ کھڑا رہے پھر کہا مراد والے سب بیٹھ جائو صرف قرن والے کھڑے رہو تومراد قبیلے والے بیٹھ گئے صرف ایک آدمی بچا اور حضرت عمر نے کہا کہ تم قرنی ہو تو اس شخص نے کہا کہ ہاں میں قرنی ہوں تو حضرت عمر نے کہا کہ اویس کو جانتے ہو تو اس شخص نے کہا کہ ہاں جانتا ہوں۔ میرے بھائی کا بیٹا ہے میرا سگا بھتیجا ہے اس کا دماغ ٹھیک نہیں آپ کیوں پوچھ رہے ہیں تو حضرت عمر  نے کہا کہ مجھے تو تیرا دماغ صحیح نہیں لگ رہا آپ نے پوچھا کدھر تو اس نے کہا کہ آیا ہوا ہے پوچھا کہاں گیا ہے تو اس نے کہا کہ وہ عرفات گیا ہے اونٹ چرانے، آپ نے حضرت علی  کو ساتھ لیا اور عرفات کی دوڑ لگا دی جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اویس قرنی  درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے ہیں اور اونٹ چاروں طرف چر رہے ہیں یہ آ کر بیٹھ گئے اور اویس قرنی کی نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے  جب حضرت اویس نے محسوس کیا کہ دو آدمی آ گئے تو انہوں نے نماز مختصر کر دی۔ سلام پھیرا تو حضرت عمر  نے پوچھا کون ہو بھائی تو کہا جی میں مزدور ہوں اسے خبر نہیں کہ یہ کون ہیں تو حضرت عمر  نے کہا کہ تیرا نام کیا ہے تو اویس قرنی نے کہا کہ میرا نام اللہ کا بندہ تو حضرت عمر نے کہا کہ سارے ہی اللہ کے بندے ہیں تیری ماں نے تیرا نام کیا رکھا ہے تو حضرت اویس نے کہا کہ آپ کون ہیں میرا انٹرویو کرنے والے ان کا یہ کہنا تھا کہ حضرت علی   نے کہا کہ اویس یہ امیر المومنین عمر بن خطاب ہیں  اور میں ہوں علی بن ابی طالب حضرت اویس کا یہ سننا تھا کہ وہ کانپنے لگے کہا کہ جی میں معافی چاہتا ہوں میں تو آپ کو پہچانتا ہی نہیں تھا میں تو پہلی دفعہ آیا ہوں تو حضرت عمر   نے کہا کہ تو ہی اویس ہے تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں ہی اویس ہوں حضرت عمر نے کہا کہ ہاتھ اٹھا اور ہمارے لیے دعا کر وہ رونے لگے اور کہا کہ میں دعا کروں آپ لوگ سردار اور میں نوکر آپ کا میں آپ لوگوں ک لیے دعا کروں  تو حضرت عمر  نے کہا کہ ہاں اللہ کے نبی ۖ نے فرمایا تھا۔ عمر اور علی  جیسی ہستیوں کے لیے حضرت اویس کے ہاتھ اٹھوائے گئے کس لیے اس کے پیچھے جہاد نہیں، تبلیغ نہیں، تصوف نہیں اس کے پیچھے ماں کی خدمت ہے۔ آخر میں مولانا طارق جمیل نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں کو وہ حدیث سناتا ہوں کہ جب لوگ جنت میں جا رہے ہوں گے تو حضرت اویس قرنی بھی چلیں گے اس وقت اللہ تعالی فرمائیں گے کے دوسروں کو جانے دو اور اویس کو روک لو  اس وقت حضرت اویس قرنی  پریشان ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ اے خدا آپ نے مجھے دروازے پر کیوں روک لیا کیا ہو گیا مجھ سے اس وقت اللہ تعالی  فرمائیں گے کہ پیچھے دیکھو جب پیچھے دیکھیں گے تو پیچھے کروڑوں، اربوں کے تعداد میں جہنمی کھڑے ہوں گے تو اس وقت خدا فرمائے گا کہ اویس تیری ایک نیکی نے مجھے بہت خوش کیا ہے ماں کی خدمت تو انگلی کا اشارہ کر جدھر جدھر تیری انگلی پھرتی جائے گی میں تیرے طفیل ان کوجنت میں داخل کر دوں گا۔ یہ وہ ماں ہے جو کراچی کے ہر گھر میں ذلیل ہو رہی ہے۔

Advertisement

No comments.

Leave a Reply